India is experiencing an unprecedented early onset of scorching summer temperatures, with the Indian Meteorological Department (IMD) issuing severe heat warnings for northern regions including the capital Delhi. The mercury has already climbed past 40°C (104°F) in several states, signaling what climate experts fear could be one of the most brutal summers on record.
The IMD has activated a yellow alert across northern and central states including Haryana, Punjab, Rajasthan and Gujarat, indicating potentially dangerous conditions for vulnerable populations. This early heatwave, arriving weeks ahead of schedule, highlights the accelerating impacts of climate change on South Asia’s weather patterns, with experts warning of increased frequency and intensity of extreme heat events.
India’s unprecedented early heatwave serves as a stark reminder of climate change’s accelerating impacts. With temperatures shattering records weeks before summer’s typical peak, the event underscores the urgent need for comprehensive heat action plans and climate adaptation strategies. As scientists predict such extreme weather events will become more frequent, both immediate protective measures for vulnerable populations and long-term climate policies are essential to mitigate the growing public health and economic threats posed by rising temperatures.
بھارت کے محکمہ موسمیات نے شمالی ہندوستان کے وسیع علاقوں کے لیے گرم ترین درجہ حرارت کی وارننگ جاری کی ہے۔ دارالحکومت دہلی سمیت ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور گجرات جیسی ریاستوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے۔ محکمے نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ییلو الرٹ جاری کیا ہے جو بتاتا ہے کہ عام لوگوں کے لیے گرمی قابل برداشت ہے لیکن بچوں، بزرگوں اور بیمار افراد کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ
موجودہ گرمی کی لہر نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بعض علاقوں میں درجہ حرارت معمول سے 5-6 ڈگری زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اپریل کے مہینے میں دیکھنے میں آنے والا غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ عام طور پر شمالی ہندوستان میں مئی اور جون کے مہینوں میں اس قسم کی شدید گرمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس تبدیلی کو موسمیاتی تبدیلیوں کی واضح علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
صحت پر مرتب ہونے والے اثرات
شدید گرمی کے باعث ہسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ لوگ دوپہر 11 بجے سے شام 4 بجے تک باہر نکلنے سے گریز کریں، کافی مقدار میں پانی پئیں اور ہلکے رنگ کے ڈھیلے کپڑے پہنیں۔ خاص طور پر دل کے مریضوں، حاملہ خواتین اور بچوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ دہلی جیسے شہروں میں فضائی آلودگی کے ساتھ شدید گرمی نے مل کر صحت کے مسائل کو دوچند کر دیا ہے۔
زراعت پر منفی اثرات
کسانوں کو اس غیر معمولی گرمی سے شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ گندم کی فصل، جو اس وقت کٹائی کے مرحلے میں ہے، کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ ماہرین زراعت کے مطابق اگر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو گندم کی پیداوار میں 15-20 فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے، جس سے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر گندم کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
توانائی کی طلب میں اضافہ
شدید گرمی کے باعث بجلی کی طلب میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کئی ریاستوں میں بجلی کی کٹوتی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کیونکہ بجلی گھر بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ لوگوں نے پنکھوں اور اے سی کے مسلسل استعمال پر مجبور ہو کر بجلی کے بلوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا کردار

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ قبل از وقت اور غیر معمولی گرمی گلوبل وارمنگ کا براہ راست نتیجہ ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں بھارت میں گرمی کی لہروں کی تعداد اور شدت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں بھارت نے اپنی تاریخ کے گرم ترین مارچ اور اپریل کے مہینے ریکارڈ کیے تھے، اور 2023 کا آغاز بھی اسی طرح ہو رہا ہے۔
حکومتی ردعمل اور احتیاطی تدابیر
کئی ریاستی حکومتوں نے اسکولوں کے اوقات کار میں تبدیلی کر دی ہے اور دوپہر کے وقت باہر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ دہلی حکومت نے شہر بھر میں “کولنگ سینٹرز” کھولنے کا اعلان کیا ہے جہاں غریب لوگ گرمی سے پناہ لے سکیں گے۔ محکمہ موسمیات نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہائیڈریٹ رہیں، سر ڈھانپ کر رکھیں اور گرمی سے متعلقہ بیماریوں کی علامات پر نظر رکھیں۔
آخری بات
بھارت میں اس قبل از وقت شدید گرمی کی لہر نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات کو ایک بار پھر واضح کر دیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے ایک وارننگ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ عام شہریوں کو چاہیے کہ وہ محکمہ موسمیات کی جاری کردہ ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور گرمی سے بچاؤ کے تمام ممکنہ انتظامات کریں۔ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ مستقبل میں آنے والی ایسی ہی گرمی کی لہروں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کریں تاکہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔