In an extraordinary event that has captured national attention, a man from India’s Telangana state married two women simultaneously in the same ceremony. The unique wedding took place in Gumnur village of Komaram Bheem Asifabad district, where Surya Dev, the groom, exchanged vows with both Lal Devi and Jhalkari Devi under the same wedding canopy. This unconventional union has sparked widespread discussion about marriage traditions in modern India.
Details of the Unusual Wedding
- Ceremony held with both brides simultaneously
- Wedding invitations featured both brides’ names
- Traditional Hindu rituals performed with both women
- Village elders initially hesitant but eventually approved
- Video shows brides holding groom’s hands during pheras
The Love Story Behind the Wedding
Surya Dev claims to have genuinely loved both women and couldn’t choose between them. After developing relationships with both Lal Devi and Jhalkari Devi, the trio decided to live together. The village panchayat (council) eventually gave their consent after initial reservations, allowing the unprecedented ceremony to take place.
Legal and Social Implications
While polygamy is legally prohibited for Hindus in India under the Hindu Marriage Act (1955), some tribal communities still practice it under customary laws. The incident raises questions about:
- Conflict between personal law and statutory law
- Evolving social norms in rural India
- Women’s rights in such arrangements
- Community acceptance of unconventional unions
Public Reaction
The wedding has generated mixed responses:
- Some praise it as progressive and love-based
- Others criticize it as regression to outdated practices
- Legal experts debate its validity
- Social media divided over the morality of the arrangement
- Village residents largely supportive after initial hesitation
Conclusion
This unusual wedding ceremony highlights the complex interplay between tradition, personal choice, and legal frameworks in contemporary India. While the marriage may face legal challenges, it undoubtedly represents a fascinating case study of how rural communities navigate changing social dynamics in 21st century India.
بھارت کے تلنگانہ ریاست میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جہاں ایک نوجوان نے ایک ہی تقریب میں دو لڑکیوں سے شادی کرلی۔ یہ غیر معمولی شادی کومرم بھیم آصف آباد ضلع کے گمنور گاؤں میں منعقد ہوئی، جہاں دلہا سوریا دیو نے لال دیوی اور جھلکاری دیوی دونوں کے ساتھ ایک ہی منڈپ کے نیچے شادی کے وٹے باندھے۔ اس غیر روایتی اتحاد نے جدید بھارت میں شادی کی رسومات پر وسیع بحث چھیڑ دی ہے۔
شادی کی تفصیلات
یہ شادی تمام روایتی ہندو رسومات کے ساتھ انجام دی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شادی کے دعوت ناموں پر دونوں دلہنوں کے نام درج تھے۔ ویڈی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں دلہنیں دلہے کا ہاتھ پکڑے ہوئے آگ کے گرد پھیرے لے رہی ہیں۔ گاؤں کے بزرگوں نے ابتدا میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا، لیکن آخر کار انہوں نے اس انوکھی شادی کو اپنی منظوری دے دی۔
محبت کی کہانی

سوریا دیو کا کہنا ہے کہ وہ دونوں لڑکیوں سے سچی محبت کرتا تھا اور ان میں سے کسی ایک کو چننا ممکن نہیں تھا۔ لال دیوی اور جھلکاری دیوی دونوں کے ساتھ تعلقات استوار ہونے کے بعد، ان تینوں نے مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں پنچایت نے ابتدائی تحفظات کے بعد اس غیر معمولی شادی کی اجازت دے دی۔
قانونی و سماجی اثرات
اگرچہ ہندو میرج ایکٹ (1955) کے تحت بھارت میں ہندوؤں کے لیے کثیر شادی ممنوع ہے، لیکن بعض قبائلی برادریاں اب بھی اپنے رواجی قوانین کے تحت اس پر عمل کرتی ہیں۔ یہ واقعہ کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے:
ذاتی قانون اور قانونی ضابطے کے درمیان تصادم
دیہی بھارت میں بدلتی ہوئی سماجی اقدار
ایسے معاہدوں میں خواتین کے حقوق
غیر روایتی اتحادوں کے لیے معاشرتی قبولیت
عوامی ردعمل
اس شادی نے مختلف ردعمل کو جنم دیا ہے:
کچھ لوگ اسے ترقی پسند اور محبت پر مبنی قرار دے رہے ہیں
دوسرے اسے پرانی رسومات کی طرف واپسی سمجھتے ہیں
قانونی ماہرین اس کی قانونی حیثیت پر بحث کر رہے ہیں
سوشل میڈیا پر اس معاملے کی اخلاقیات پر اختلافات ہیں
گاؤں والے ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد اب زیادہ تر حمایتی ہیں
قانونی صورت حال
بھارتی قانون کے مطابق:
ہندو، عیسائی اور پارسی برادریوں کے لیے کثیر شادی ممنوع
مسلم مردوں کو محدود شرائط کے تحت اجازت
قبائلی علاقوں میں رواجی قوانین کا نفاذ
اس معاملے میں قانونی چیلنج کا امکان
ریاستی حکومت کی جانب سے جائزہ لینے کا امکان
دلہا اور دلہنوں کے خاندان کا موقف
دلہے کے والد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے اس فیصلے کو قبول کیا۔ دونوں دلہنوں کے خاندان بھی اب اس اتحاد سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ گاؤں کے سرپنچ نے بتایا کہ چونکہ تمام فریقین راضی تھے، اس لیے پنچایت نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اختتامیہ
یہ غیر معمولی شادی بھارت میں روایت، ذاتی انتخاب اور قانونی فریم ورک کے درمیان پیچیدہ تعلق کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ یہ شادی قانونی چیلنجوں کا سامنا کر سکتی ہے، لیکن یہ بلاشبہ ایک دلچسپ کیس اسٹڈی پیش کرتی ہے کہ کس طرح دیہی برادریاں 21ویں صدی کے بدلتے ہوئے سماجی dynamics کو navigate کرتی ہیں۔
مذہبی رہنماؤں کی رائے
ہندو مذہبی رہنماؤں نے اس معاملے پر مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ کچھ نے اسے شاستروں کے خلاف قرار دیا ہے، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ قدیم ہندو متون میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔ مسلم علماء نے واضح کیا ہے کہ اسلام میں بھی ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے سخت شرائط ہیں۔ عیسائی رہنماؤں نے اسے مذہبی تعلیمات کے خلاف قرار دیا ہے۔
خواتین کے حقوق کے کارکنوں کا موقف
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانا چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام شادیوں کو یکساں قانون کے تحت لائے۔ کچھ خواتین تنظیموں نے اسے “محبت کی فتح” قرار دیتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
میڈیا کوریج اور سماجی میڈیا کا ردعمل
اس واقعے نے بھارتی میڈیا میں کافی توجہ حاصل کی ہے۔ تمام بڑے نیوز چینلز نے اسے اپنی سرخیوں میں جگہ دی۔ سماجی میڈیا پر #DoubleWedding ٹرینڈ کر رہا ہے۔ کچھ صارفین نے اسے “محبت کی فتح” قرار دیا تو کچھ نے “سماجی انحطاط” کا لیبل لگایا۔ یہ معاملہ اب تک لاکھوں بار دیکھا جا چکا ہے۔
آخری بات
یہ واقعہ بھارت کے سماجی و ثقافتی تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک جدید قوانین رکھتا ہے، وہیں دوسری طرف دیہی علاقوں میں روایتی رسومات اب بھی زندہ ہیں۔ اس معاملے نے قانون، روایت اور انفرادی حقوق کے درمیان توازن کے اہم سوالات کو جنم دیا ہے جو بھارت جیسے متنوع ملک کے لیے خاصے اہم ہیں۔