In the occupied region of Kashmir, a controversial fashion show featuring semi-naked models during the holy month of Ramadan has drawn severe criticism from the public, religious leaders, and political figures. The event, held in Baramulla’s Gulmarg area, has been labeled as a blatant violation of cultural and religious values.
The fashion show, which took place in a region already grappling with political and social tensions, has ignited widespread anger. Religious leaders, including Jammu and Kashmir’s Grand Mufti Nasir-ul-Islam, have condemned the event, calling it an affront to Kashmiri culture and Islamic teachings. The Grand Mufti demanded legal action against those responsible, stating that such acts are unacceptable in Islam and deeply hurt the sentiments of the people.
This incident has not only sparked outrage but also raised questions about the moral and ethical direction of society in the occupied valley. The public’s reaction highlights the deep-rooted respect for religious and cultural values in Kashmir, making such events particularly controversial.
مقبوضہ کشمیر کے علاقے بارہ مولا گلمرگ میں رمضان المبارک کے دوران نیم برہنہ ماڈلز کے فیشن شو کو مقبوضہ وادی کے عوام کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف مذہبی اقدار کے منافی ہے بلکہ کشمیری ثقافت کے بھی خلاف ہے۔
سیاسی و مذہبی رہنمائوں کا شدید ردعمل
متعدد سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے اس فیشن شو کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کے گرینڈ مفتی ناصر الاسلام نے اس واقعے کو کشمیر کی ثقافت اور اسلامی اقدار کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نیم برہنہ مرد اور خواتین کا ریمپ پر چلنا بالکل ناقابل قبول ہے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
عوامی غم و غصہ
مقبوضہ کشمیر کے عوام اس فیشن شو پر سخت غصے میں ہیں۔ یہ شو بڑے پیمانے پر غم و غصے کا باعث بنا اور مذہبی رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی نے اس پر شدید ردعمل دیا۔ عوام کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ایسی بیہودہ سرگرمیوں کے لیے نہیں ہے۔
گرینڈ مفتی کا بیان
جموں و کشمیر کے گرینڈ مفتی ناصر الاسلام نے پیر کے روز گلمرگ میں رمضان المبارک کے دوران منعقدہ فیشن شو کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے کشمیر کی ثقافت کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نیم برہنہ مرد اور خواتین ریمپ پر چل رہے تھے، جو بالکل ناقابل قبول ہے، یہ ہمارے روایتی اور مذہبی اقدار کے خلاف ہے، اس کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
مذہبی اقدار کی پامالی

یہ فیشن شو نہ صرف مذہبی اقدار کی پامالی ہے بلکہ کشمیری ثقافت کے بھی خلاف ہے۔ کشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے کے اخلاقی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔
سیاسی رہنمائوں کا ردعمل
سیاسی رہنمائوں نے بھی اس فیشن شو کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کشمیر کی ثقافت اور مذہبی اقدار کے خلاف ہیں اور انہیں روکنا چاہیے۔
سول سوسائٹی کا موقف
سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی اس فیشن شو کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات معاشرے کے اخلاقی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں اور انہیں روکنا چاہیے۔
مرکزی حکومت سے مداخلت کی اپیل
گرینڈ مفتی ناصر الاسلام نے مرکزی حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ جموں و کشمیر کی سرزمین پر اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
کشمیری ثقافت کا تحفظ
کشمیری ثقافت کا تحفظ ہر کشمیری کی ذمہ داری ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف مذہبی اقدار کی پامالی ہیں بلکہ کشمیری ثقافت کے بھی خلاف ہیں۔
عوامی ردعمل
مقبوضہ کشمیر کے عوام اس فیشن شو پر سخت غصے میں ہیں۔ یہ شو بڑے پیمانے پر غم و غصے کا باعث بنا اور مذہبی رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی نے اس پر شدید ردعمل دیا۔
قانونی کارروائی کا مطالبہ
گرینڈ مفتی ناصر الاسلام نے اس فیشن شو کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے سنگین اعمال اسلام میں ناقابل قبول ہیں، ہمیں شدید دکھ پہنچا ہے اور مرکزی حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ جموں و کشمیر کی سرزمین پر اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
آخر میں
یہ فیشن شو نہ صرف مذہبی اقدار کی پامالی ہے بلکہ کشمیری ثقافت کے بھی خلاف ہے۔ کشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے کے اخلاقی اقدار کو تباہ کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے تاکہ جموں و کشمیر کی سرزمین پر اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔
کشمیری ثقافت کا تحفظ ہر کشمیری کی ذمہ داری ہے۔ ایسے واقعات نہ صرف مذہبی اقدار کی پامالی ہیں بلکہ کشمیری ثقافت کے بھی خلاف ہیں۔ ہمیں اپنی ثقافت اور مذہبی اقدار کا تحفظ کرنا چاہیے اور ایسے واقعات کو روکنا چاہیے۔