Marriage is a significant decision in a person’s life, and when it comes to love marriages, the journey is often filled with challenges, resistance, and emotional turmoil. In many societies, the choice of a life partner is not always left to individuals, leading to conflicts between personal desires and family expectations. The story of Wardah, a young woman determined to marry Farhad despite opposition from her family, reflects this struggle. Her mother, Sumaira Begum, who had once fought for her own love marriage, now finds herself caught between her daughter’s wishes and the disapproval of her in-laws.
میں نے کہہ دیا ہے میں شادی کروں گی تو فرہاد سے اور کسی سے نہیں۔ برآمدے میں لگے آئینے کے سامنے کھڑی وردہ اپنے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ سمیرا بیگم نے گہری سانس اپنے اندر اتارتے ہوئے اپنی دراز قد بیٹی کی پشت کو دیکھا۔ لیکن ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی قریبی تخت پر نیم دراز ذکیہ خاتون فوراً چوکس ہو کر اٹھ بیٹھیں۔ ہاں بھی سچ ہی کہا ہے کسی نے، جیسی ماں ویسی بیٹی۔ ماں نے بھی تو اپنی پسند سے شادی کی تھی پھر بیٹی کیوں کر پیچھے رہتی، اس نے بھی تو ماں کے نقش قدم پر ہی چلنا ہے نا؟ ساس کے جلے کٹے تبصرے پر سمیرا کا دل لمحوں میں خاک ہوا تھا۔
وردہ کی بات نے گھر میں طوفان برپا کر دیا تھا۔ ذکیہ خاتون نے سمیرا پر طنز کے تیر برسائے، جیسے ان کے دل کی بھڑاس نکل رہی ہو۔ ان کا ماننا تھا کہ محبت کی شادی کی وجہ سے خاندان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ سمیرا بیگم خاموشی سے اپنی ماں کی طرح سب کچھ سہنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ وردہ کا فیصلہ اس کے دل سے ہے، لیکن وہ گھر کے بگڑتے ماحول کو دیکھ کر پریشان تھیں۔
مکرم صاحب کے شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے سمیرا بیگم کو گھر میں تنہا ہی یہ سب برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ ان کے سسرال میں ہر روز اس موضوع پر کوئی نہ کوئی بات چھیڑ دی جاتی، اور وہ مجبور ہو کر خاموش رہتیں۔ وردہ کو جب بھی موقع ملتا، وہ اپنی ماں سے بحث کرتی کہ اسے صرف اور صرف فرہاد سے شادی کرنی ہے۔
سمیرا بیگم کا ذہن ماضی کی طرف چلا گیا۔ جب انہوں نے خود اپنی پسند کی شادی کی تھی، تب بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی ساس نے کبھی انہیں قبول نہیں کیا اور آج وہی تاریخ دہرائی جا رہی تھی، بس کردار بدل گئے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو کھونا نہیں چاہتی تھیں، لیکن وہ خاندان کے دباؤ کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتی تھیں۔

وردہ کے لیے، اس کی محبت سب سے بڑھ کر تھی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہر قیمت پر فرہاد سے شادی کرے گی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ آسان نہیں ہوگا، لیکن وہ اپنی ماں سے مختلف راستہ اختیار کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنے فیصلے پر قائم رہنا چاہتی تھی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
ادھر ذکیہ خاتون کسی بھی قیمت پر اس رشتے کو ہونے نہیں دینا چاہتی تھیں۔ وہ بار بار سمیرا بیگم کو ان کے ماضی کی یاد دلا کر شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لیکن سمیرا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی خوشیوں کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔
یہ کہانی صرف وردہ کی نہیں، بلکہ ہر اس لڑکی کی ہے جو اپنے حق کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ محبت اور شادی کا فیصلہ کسی کا ذاتی حق ہے، اور وقت کے ساتھ خاندانوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ خوشیوں کے لیے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ کیا وردہ اپنی محبت حاصل کر پائے گی، یا تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرائے گی؟