In a stunning breakthrough in genetic science, researchers in the United States have managed to recreate a species of wolves that went extinct nearly 10,000 years ago. These genetically engineered animals resemble the legendary Dire Wolves, made famous by both history and pop culture, especially in shows like Game of Thrones. The three wolves have been named Romulus, Remus, and Khaleesi — symbolizing both mythology and modern storytelling.
Developed by the Dallas-based biotech company Colossal Biosciences, these wolves were brought to life through advanced genetic techniques using preserved DNA sequences of the Dire Wolf. Though they are not exact clones, the newly born creatures share significant physical and behavioral traits with their extinct ancestors.
What Makes This a Landmark Discovery?
- These wolves are the first of their kind in 10,000 years.
- Scientists used gene-editing technologies like CRISPR to recreate ancient DNA patterns.
- The pups already weigh around 80 pounds, and are expected to reach 140 pounds in adulthood.
- Their long white fur and powerful jaws are among the traits most similar to the original Dire Wolves.
While this scientific achievement is being celebrated, it also raises ethical and environmental questions. Should extinct animals be brought back? What impact might they have on ecosystems? For now, these wolves are being closely monitored in a secure facility as scientists study their growth and behavior.
امریکہ میں واقع ایک خفیہ اور محفوظ مقام پر تین ایسے بھیڑیے پیدا کیے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر سائنسدان حیران رہ گئے۔ ان کا تعلق براہ راست ماضی میں معدوم ہونے والی نسل “ڈائر وولف” سے جوڑا جا رہا ہے، جو تقریباً 10 ہزار سال قبل دنیا سے ناپید ہو گئی تھی۔
بھیڑیوں کے نام اور خصوصی خصوصیات
ان تین نایاب بھیڑیوں کو خاص نام دیے گئے ہیں: رومولس، ریموس، اور کھلیسی۔ یہ نام رومن اور جدید داستانوں سے ماخوذ ہیں۔ ان کے جسم پر لمبے سفید بال، مضبوط جبڑے اور بھاری جسم کی خصوصیات دیکھی گئی ہیں۔ ابھی صرف تین سے چھ ماہ کی عمر میں ہی ان کا وزن 80 پاؤنڈ تک پہنچ چکا ہے، اور ماہرین کے مطابق یہ بالغ ہونے پر 140 پاؤنڈ تک پہنچ سکتے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہوا؟

ڈیلس میں قائم کولوسل بائیوسائنسز کے سائنسدانوں نے جدید جینیاتی ٹیکنالوجی جیسے کہ CRISPR کا استعمال کرتے ہوئے ماضی کے DNA کو جدید جانداروں میں شامل کیا۔ انہوں نے ڈائر وولف کے قدیم نمونوں سے حاصل شدہ جینیاتی مواد کو استعمال کرتے ہوئے موجودہ نسل کے جانوروں میں یہ صفات منتقل کیں۔
مستقبل کی سمت: تحقیق یا خطرہ؟
اس تحقیق سے سائنسدانوں کو نہ صرف ماضی کے جانداروں کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ نایاب یا خطرے سے دوچار جانوروں کی حفاظت میں بھی نئی راہیں کھلیں گی۔ تاہم، اس میں خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس کی یہ پیش رفت ایک دو دھاری تلوار ہے — ایک طرف زندگی کے بھید کھولنے کا موقع اور دوسری طرف فطری توازن کو بگاڑنے کا خدشہ۔
نتیجہ
تین نایاب بھیڑیوں کی پیدائش نے دنیا بھر میں حیرت اور تجسس پیدا کر دیا ہے۔ 10 ہزار سال بعد ڈائر وولف جیسی مخلوق کا زمین پر دوبارہ آنا صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ انسانی تجسس، قابلیت اور قدرت کے ساتھ تعلق کا مظہر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس کامیابی کو کس سمت لے جاتے ہیں — علم کی بلندیوں کی طرف یا قدرتی نظام میں مداخلت کے خطرناک راستے پر۔
یہ بات طے ہے کہ سائنس رکنے والی نہیں، لیکن اس کے ہر قدم پر ذمہ داری، فہم، اور احتیاط لازم ہے۔