In a bizarre and fascinating tale from history, a chicken named Mike became famous for surviving without a head for 18 months. This incredible story began on September 10, 1945, in Colorado, USA, when farmer Lloyd Olsen attempted to decapitate a chicken for dinner. To his astonishment, the chicken, later named Mike, did not die. Instead, it continued to live, eat, and even attempt to crow, despite losing its head.
Mike’s survival was not a miracle but a result of a unique anatomical quirk. The axe had missed the jugular vein and brainstem, leaving enough of the brain intact to sustain basic functions. Lloyd Olsen and his wife Clara decided to care for Mike, feeding him with an eyedropper and taking him on tours across the country. Mike became a sensation, earning his owners a significant income and securing his place in history as one of the most extraordinary animals to have ever lived.
یہ بات عام ہے کہ کوئی بھی جانور یا انسان سر قلم ہونے کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن آج ہم آپ کو ایک ایسے مرغے کے بارے میں بتائیں گے جو سر قلم ہونے کے باوجود 18 ماہ تک زندہ رہا۔ اس دوران اس مرغے نے نہ صرف دنیا بھر میں پہچان بنائی بلکہ اپنے مالک کو بھی مالا مال کر دیا۔
70 سال قبل، 10 ستمبر 1945 کو، امریکی ریاست کولوراڈو میں لوئیڈ اولسن نامی کسان اپنی اہلیہ کلارا کے ساتھ فروخت کی غرض سے مرغیوں کے سر قلم کر رہا تھا۔ لیکن اس روز 40 یا 50 مرغیوں میں سے ایک مرغا سر قلم ہونے کے باوجود نہیں مرا اور دیگر مرغیوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا۔
لوئیڈ اولسن نے اس سر کٹے مرغے کو رات کے لیے سیبوں کے ڈبے میں رکھ دیا اور اگلی صبح اولسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مرغا ابھی تک زندہ تھا۔ اولسن نے اس مرغے کو مائیک کا نام دیا اور کٹی ہوئی مرغیوں کو فروخت کے لیے بازار لے جانے لگا تو مائیک کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اس کے پاس سر قلم کیے جانے کے باوجود زندہ مرغا ہے۔
مائیک کی زندہ رہنے کی وجہ
مائیک کی زندہ رہنے کی وجہ کوئی معجزہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک انوکھے جسمانی واقعہ کا نتیجہ تھا۔ جب لوئیڈ اولسن نے مرغے کا سر قلم کیا، تو کلہاڑی نے شہ رگ اور دماغ کے تنے کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ سے مرغے کا دماغ کا ایک حصہ باقی رہ گیا تھا جو اس کے بنیادی جسمانی افعال کو برقرار رکھنے کے لیے کافی تھا۔
مائیک کا دماغ کا وہ حصہ جو باقی رہ گیا تھا، اسے بنیادی افعال جیسے سانس لینا، حرکت کرنا، اور کھانا ہضم کرنے میں مدد فراہم کرتا تھا۔ اس کے علاوہ، مرغے کے جسم میں خون کا بہاؤ بھی برقرار رہا، جس کی وجہ سے وہ زندہ رہ سکا۔
مائیک کی شہرت

مائیک کی کہانی جلد ہی پورے امریکا میں پھیل گئی، اور لوگ اس عجیب و غریب مرغے کو دیکھنے کے لیے دور دراز سے آتے تھے۔ لوئیڈ اولسن اور اس کی اہلیہ کلارا نے مائیک کو ایک سرکس کی طرح پیش کیا اور اسے مختلف شہروں میں لے کر گئے۔
مائیک کی شہرت نے اس کے مالکوں کو ایک بڑی آمدنی فراہم کی۔ لوگ مائیک کو دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدتے تھے، اور اس کی کہانی اخبارات اور ریڈیو پر بھی چھائی رہی۔ مائیک نے نہ صرف اپنے مالکوں کو مالا مال کیا بلکہ تاریخ میں ایک انوکھے جانور کے طور پر اپنا نام درج کرایا۔
مائیک کی موت
مائیک سر قلم ہونے کے بعد 18 ماہ تک زندہ رہا، لیکن آخرکار اس کی موت ہو گئی۔ ایک رات جب لوئیڈ اولسن اور کلارا مائیک کو ایک ہوٹل میں لے کر گئے، تو مائیک کا گلا پھنس گیا، اور وہ سانس لینے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد مائیک کی موت ہو گئی، لیکن اس کی کہانی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
مائیک کی میراث
مائیک کی کہانی نے نہ صرف لوگوں کو حیران کیا بلکہ سائنسدانوں کو بھی اس بات پر غور کرنے پر مجبور کیا کہ جانوروں کے جسم کس طرح کام کرتے ہیں۔ مائیک کی کہانی نے یہ ثابت کیا کہ کبھی کبھار جسمانی نظام میں چھوٹی سی غلطی بھی ایک بڑے معجزے کا باعث بن سکتی ہے۔
آج بھی کولوراڈو کے شہر فریوٹا میں ہر سال مائیک کے نام سے ایک تہوار منایا جاتا ہے، جس میں لوگ اس عجیب و غریب مرغے کی یاد مناتے ہیں
آخر میں
مائیک کی کہانی ایک انوکھی اور دلچسپ داستان ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کچھ بھی ممکن ہے۔ مائیک نے نہ صرف اپنے مالکوں کو مالا مال کیا بلکہ تاریخ میں ایک انوکھے جانور کے طور پر اپنا نام درج کرایا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کہانی آپ کے لیے دلچسپ اور معلوماتی ثابت ہوگی۔ اگر آپ کو یہ کہانی پسند آئی ہو، تو اسے اپنے دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔