Words have the power to heal and the power to wound. A single phrase, spoken at the wrong moment, can turn a beautiful bond into a painful memory. This true story serves as a reminder of how the harshness of words can poison even the most loving relationships. It’s a tale of sacrifice, love, and the unspoken pain that many parents endure when their children, lost in their own world, forget the ones who gave them everything.
الفاظ کا زہر: ایک دردناک حقیقت
الفاظ کی تاثیر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یہ مرہم بھی بن سکتے ہیں اور زہر بھی۔ ایک چھوٹا سا جملہ، کسی غلط لمحے میں ادا ہونے والا، زندگی بھر کا پچھتاوا دے سکتا ہے۔ یہ کہانی بھی ایسے ہی ایک زہر آلود جملے کی ہے، جس نے ایک ماں کے دل کو توڑ دیا۔
یہ ایک ماں کی کہانی ہے، جس نے محدود وسائل اور کم تعلیم کے باوجود اپنے بیٹے کو اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔ اس بیٹے نے یونیورسٹی میں ایک لڑکی کو پسند کیا اور والدین کی مخالفت کے باوجود شادی کر لی۔ شادی کے بعد مصروفیات بڑھتی گئیں اور والدین سے ملنے کے فاصلوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مگر ماں کا دل تو اولاد کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔ ایک دن جب بیٹے کی یاد شدت اختیار کر گئی، تو شوہر کی مخالفت کے باوجود، بغیر اطلاع دیے، وہ لاہور پہنچ گئی۔
لاہور پہنچنے کے بعد، ماں اور باپ بیٹے کے گھر پہنچے، جہاں وہ اور اس کی بیوی باہر جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ ماں خوشی سے بیٹے کی طرف بڑھی، لیکن کانوں میں بہو کی آواز گونج اٹھی:
“اپنا ہنی مون منانے آ گئے ہیں؟”
یہ جملہ ایک زہر تھا، جو ماں کے دل میں اتر گیا۔ مگر بیٹے نے اس زہر کی کڑواہٹ کو محسوس کیے بغیر، والدین کو ناشتے کے پیسے اور واپسی کی ٹکٹس دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سیمینار میں جا رہا ہے، اس لیے والدین خود ہی واپس چلے جائیں۔
ماں اور باپ خاموشی سے لوٹ آئے۔ مگر اس دن کے بعد ماں کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ ہارٹ اٹیک کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئی۔ شاید وہ اسی دن مر گئی تھی جب اس کے بیٹے نے اسے اپنے گھر میں جگہ دینے کے بجائے چند نوٹ اور ایک معذرت دی تھی۔
یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہیں، چھوٹی چھوٹی باتیں دل پر لے لیتی ہیں…
ماں کی محبت کا جواب

بیٹا شاید اپنی زندگی میں مصروف تھا، شاید وہ سمجھتا تھا کہ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اب ایک نئی زندگی شروع کر چکا ہے۔ مگر کیا ماں باپ کے جذبات اتنے بے قیمت ہوتے ہیں کہ انہیں محض وقت کی کمی کے بہانے نظرانداز کر دیا جائے؟
جب بچپن میں یہ بیٹا بیمار ہوتا تھا تو ماں پوری رات جاگ کر اس کا سر سہلاتی تھی۔ جب پہلی بار اس کے قدم لڑکھڑائے تھے، تو ماں نے ہی اسے سنبھالا تھا۔ جب اسے پہلی بار کسی مشکل کا سامنا ہوا تھا، تو ماں نے اسے حوصلہ دیا تھا۔ پھر کیوں، جب ماں نے صرف ایک بار بیٹے کو دیکھنے کی خواہش کی، تو اسے یہ طعنہ ملا؟
وقت اور الفاظ کی قیمت
ہم اکثر سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت کی کمی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت ہمیشہ موجود ہوتا ہے، بس ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ ایک لمحے کے سخت الفاظ زندگی بھر کا افسوس بن سکتے ہیں۔
اگر اس بیٹے نے تھوڑی سی محبت اور عزت کا مظاہرہ کیا ہوتا، اگر اس نے ماں کے جذبات کو سمجھا ہوتا، تو شاید آج وہ پچھتاوے میں نہ ہوتا۔ والدین ہمیشہ ہمارے ساتھ نہیں رہتے، لیکن ان کے جانے کے بعد ان کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔
یہ کہانی صرف ایک ماں کی نہیں، یہ ہر اس ماں کی ہے جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ قربان کر دیتی ہے، مگر بدلے میں صرف چند تلخ جملے سننے کو ملتے ہیں۔